نوازشریف کانام ای سی ایل سے نکالنےکی درخواست پرسماعت نہ ہوسکی
برطرف وزیراعظم نواز شریف کا نام ایگزیٹ کنٹرول لسٹ ( ای سی ایل ) سے نکالنے کیلئے عائد شرائط کے خلاف درخواست پر آج بروز بدھ 20 اپریل کو سماعت نہ ہوسکی۔رپورٹ کے مطابق بینچ کے سربراہ کے رخصت پر ہونے کے باعث درخواست کی سماعت نہ ہوسکی، جس کے بعد لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار نے شہباز شریف کی درخواست کاز لسٹ سے نکال دی ہے۔قبل ازیں لاہور ہائی کورٹ نے بروز منگل 19 اپریل کو نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست سماعت کیلئے مقرر کی تھی۔ لاہور ہائی کورٹ میں نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست 2019 میں شہباز شریف نے دائر کی تھی۔ عدالت نے عبوری حکم کے تحت نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا تھا۔دو رکنی بینچلاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ ( جسٹس شہباز علی رضوی اور جسٹس انوار الحق پنوں ) نے آج شہباز شریف کی درخواست پر سماعت کرنی تھی۔ گزشتہ سماعت پر عدالت نے نواز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دیتے ہوئے پانچ سوالات پوچھے تھے۔عدالت کے 5 سوالعدالت نے 5 قانونی نکات پر وکلاء کو بحث کیلئے بھی طلب کر رکھا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ کیا سزا یافتہ ملزم کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ کیا میمورنڈم میں عائد کی گئی شرائط کو علیحدہ کیا جا سکتا ہے؟۔عدالت کی جانب سے پوچھا گیا کیا وفاقی حکومت ای سی ایل آرڈیننس کے تحت کوئی شرائط لگا سکتی ہے؟ کیا انسانی بنیادوں پر انتہائی بیمار شخص کیخلاف اس طرح کا حکم جاری کیا جا سکتا ہے؟ کیا ضمانت منظور ہونے کے بعد ایسی شرائط لاگو کی جا سکتی ہیں؟۔انڈیمنٹی بانڈزعدالت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اگر شرائط لاگو کی جا سکتی ہیں تو کیا یہ شرائط عدالتی فیصلے کو تقویت دیں گی؟ عدالت نے وفاقی کابینہ کی آٹھ ملین پاؤنڈ، 25 ملین امریکی ڈالرز اور ڈیڑھ ارب روپے کے انڈیمنٹی بانڈز جمع کرانے کی شرط معطل کر رکھی ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ روز منگل 19 اپریل کو جاری بیان میں شہباز شریف کا کہنا تھا کہ نواز شریف اور اسحاق ڈار دونوں پاکستانی شہری ہیں اور پاسپورٹ کا حصول ان کا بنیادی حق ہے۔وزیراعظم ہاؤس میں افطار ڈنرمنگل کو اسلام آباد میں وزیر اعظم ہاؤس میں صحافیوں کے اعزاز میں دیئے گئے افطار ڈنر کے موقع پر گفتگو کے دوران سوالوں کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا تھا کہ نواز شریف اور اسحاق ڈار نے طویل عرصے تک پاکستان کی خدمت کی ہے۔ وہ علاج کیلئے بیرون ملک ہیں۔ ان کے پاسپورٹ کی تجدید ان کا حق ہے جسے روکنا زیادتی تھی۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ جب بھی نواز شریف کو ڈاکٹرز سفر کی اجازت دیں گے وہ پاکستان آ جائیں گے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ نواز شریف اور اسحاق ڈار کے پاسپورٹ کی معیاد ختم ہوچکی ہے۔ اسحاق ڈار کا پاسپورٹ ساڑھے تین سال قبل منسوخ کرا دیا گیا تھا۔یاد رہے کہ وزیراعظم نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کیلئے عائد شرائط کیخلاف درخواست 2 برس 3 ماہ بعد سماعت کیلئے مقرر کی گئی ہے۔شہباز شریف کی درخواست کی آخری سماعت 20 جنوری 2020ء کو ہوئی تھی۔ جب کہ عدالت نے 16 نومبر 2019ء کو نواز شریف کو علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے کی اجازت دی تھی۔نواز شریف کو مشروط اجازتواضح رہے کہ گزشتہ کابینہ کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس کے بعد اس وقت کے وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے اسلام آباد میں سابق معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ نواز شریف کو 4 ہفتوں کیلئے بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت دے دی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ نواز شریف یا شہباز شریف کو 7 ارب روپے کے سیکیورٹی بانڈ جمع کرانا ہوں گے جس کے بعد انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت ہوگی۔انہوں نے کہا تھا کہ 2010 کے ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) کے قوانین اور 1981 کے آرڈیننس میں بتایا گیا ہے کہ کسی بھی سزا یافتہ شخص کو ای سی ایل سے اس وقت تک نہیں ہٹا سکتے جب تک اس کی کوئی ضمانت نہ حاصل ہو۔انہوں نے مزید کہا تھا کہ نواز شریف کی طبیعت اگر ٹھیک نہ ہو تو قیام میں توسیع کی درخواست بھی دی جاسکتی ہے۔
No comments:
Post a Comment